ہم غریبی میں امیری کی ادا لائے ہیں ! سپیکر ،چیئر مین سینیٹ،اراکین پارلیمنٹ کی ’’غربت‘‘دور کر نے کے لیے تنخواہوں میں 150%اضافہ

ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں ۔۔۔۔ مر کیوں نہیں جاتے ۔۔اس درد کی دنیا سے گذر کیوں نہیں جاتے
،
عوامی نمائندوں پر نوازشات کی بارش ،پی ٹی آئی ،پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی خوش کسی نے اعتراض نہیں کیا ،چیئر مین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 2لاکھ پانچ ہزار مقرر ،مہنگائی بہت تھی
وفاقی وزیر کی بنیادی تنخواہ دو لاکھ روپے ،موجودہ مہنگائی میں اراکین اسمبلی کا گذارہ 44ہزار میں نہیں ہوتا تھا اس لیے ان کی تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر تھا ۔وزیر مملکت مریم اورنگ زیب
کراچی (ابن آدم سے )غریب ترین ملک کے غریب ترین اراکین پارلیمنٹ کو خود کشیوں سے بچا نے کے لیے سپیکر سمیت چیئر مین سینیٹ اور وزراء کی تنخواہوں میں ’’صرف‘‘150%اضافہ کر دیا گیا وفاقی وزیر کی تنخواہ دو لاکھ جب کہ سپیکر اور چیئر مین سینیٹ کو اب دو لاکھ پانچ ہزار روپے ملیں گے جب کہ رکن پارلیمنٹ کی شدید غربت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی تنخواہ 44ہزار سے بڑھا کر1لاکھ 50ہزار روپے کر دی ہے کابینہ اجلاس کے بعد وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتا یا کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں موجودہ مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم تھیں بنیادی تنخواہ 44چھ سوتیس روپے تھی جس میں گھر کا خرچہ چلانا نا ممکن تھا 2010میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس 11903روپے جب کہ 2016میں 4463اب تنخواہ الاؤنس ملا کر صرف ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کر دی گئی ہے اسی طرح چیئر مین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی غربت دور کرتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کرتے ہوئے 2لاکھ پانچ ہزار روپے کر دی گئی ہے وفاقی وزیر جس کی انتھک محنت سے پاکستان میں غربت بالکل ختم ہو گئی ہے ان کی تنخواہ بڑھا کر صرف دو لاکھ کر دی گئی ہے حکومت کی جانب سے عوامی نمائندوں پر نوازشات کی بارش کو دیکھتے ہوئے عوام خوش اور مطمئن ہیں کہ پاکستان خوشحال ہو رہا ہے غربت کا خاتمہ ہو چکا ہے عالمی بنک نے بھی کچھ اسی قسم کی خوش خبری سنائی تھی کہ پاکستان میں اب بتدریج غربت کم ہو رہی ہے جی ہاں یہی وہ غربت تھی جو کم ہو رہی ہے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ آج تک نہیں دیکھا کسی نے کہ لاکھوں روپے کی گاڑیاں کروڑوں روپے کا بنک بیلنس رکھنے والا شخص ممبر پارلیمنٹ بنتا ہے اس سے بھی زیادہ دولت رکھنے والا شخص وزرات کے سنگھاسن پر بیٹھتا ہے تو پھر ان کو ان دو لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟اس سے زایدہ کا تو ان کا پیٹرول خرچ ہو جاتا ہوگا یہ صرف ہوس اور لالچ ہے مفت میں ملتا ہوا گناہ بھی یہ لوگ نہ چھوڑیں یہ تو پیسے تھے عوامی نمائندگی کی دعوے دار حکومت کے اس فیصلے کے بعد بھی اگر عوام سمجھیں کہ یہ ہمارے خیر خواہ ہیں تو پھر اللہ حافظ کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں