تیسرا رخ رانا محمد بوٹا سنیارا اخلاقیات اور پنجاب پولیس

ایک پولیس افسر نے اپنے ماتحت کو ایک ملزم کی مختلف سٹائل کی چھ تصویریں دی اورکہا کہ اس کو پکڑ کے لاؤ۔کچھ دن بعد افسر نے ماتحت سے جواب طلب کیا تو اس نے کہا جناب پانچ پکڑلیئے ہیں ایک کی تلاش جاری ہے،کچھ اسی طرح کا حال ہمارے پنجاب پولیس کے محکمے کا ہے،اختیارات کے حوالے سے پولیس سب سے زیادہ اہم محکمہ ہے،باشعور قوموں میں پولیس کا مطلب ہوتا ہے مددگار محافظ ہمدرد اور ہمارے ہاں آپ بہتر جانتے ہیں،آج وقت کافی آگے جا چکا ہے لیکن بحثیت قوم ہم اب بھی 1857میں ہی موجود ہیں، محکمہ پولیس کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔یورپی ممالک میں تو اگر والدین بھی اپنے بچے کوماریں یا تشدد کریں یا اس کو اپنی مرضی کی زندگی نہ گزارنے دیں تو بچہ پولیس کو بلا لیتا ہے وہ بھی فون کال پر۔اور ادھر ہم ہیں کہ ۔۔۔۔۔کچھ دن پہلے میرے ایک دوست کے جاننے والے کا تھانے میں مسئلہ بنا میرا دوست جو کہ اب میری طرح ادھیڑ عمری میں قدم رکھ چکا ہے اور شائد ہی کبھی کبھار تھانے گیا ہوگا وہ بھی کسی لیڈر یا چوہدری کے ساتھ اس کی قسمت خراب کے وہ پنجاب کے تھانوں کے آداب سے ناواقف تفیشی افسر صاحب جو کہ اے ایس آئی تھا اس کو بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن افسر صاحب کو شائد کوئی سفارش تھی یا وہ اپنی ہی بات کو منوانا چاہ رہا تھامیرے دوست کو اس طرح جھاڑ پلا دی جیسے وہ ہی مجرم ہو۔اوپر سے فرمانے لگے جانتے نہیں کس کے سامنے بیٹھے ہو،میں تمہیں بھی اندر کردوں گا وغیرہ وغیرہ،میرا معصوم دوست اپنی بے بسی اور اس رویے کو برداشت کرتے ہوئے تھانے سے باہر آ گیا مجھ سے ملا آنکھوں میں بے بسی کے اور عزت نفس کے مجروح ہونے کی وجہ سے آنسومیں نے اسے حوصلہ دیااسے بہت سی مثالیں دی کہ میرے یارہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں ،یہ تو روٹین کا کام ہے ہاں تمہیں کبھی براہ راست اس محکمے سے واسطہ نہیں پڑااس لیئے محسوس کر گئے ہو۔میں ایک چھوٹا سا صحافی ہو ں اخبار دینے تھانے جاتا ہوں بڑے صاحب سے لیکر چھوٹے صاحب تک سب جانتے ہیں ،ایک دن اخبار دینے گیا تو حوالات سے ایک ملزم نے آواز دی میں اس کی بات سننے لگ گیا،تو ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبل نے مجھے گالیاں نکالنا شروع کردیں۔ کہ میری اجازت کے بغیر حوالات کے پاس کیوں رکے،وہ تو بھلا ہو کہ اندر بیٹھے ایک جاننے والے سپاہی نے میری جان چھڑوائی ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صحافتی زندگی میں کافی پولیس والوں کے ساتھ بیٹھک ہوئی ان کو پرکھا بھی آزمایابھی کچھ تو ایسے لوگ بھی ملے کہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ پنجاب پولیس والے ہیں،ایسے لگتاتھا جیسے کسی فرشتے سے واسطہ پڑ گیا ہو ،لیکن اکثریت کا حال بتانے کے قابل ہی نہیں اور چھپاہو ابھی کچھ نہیں ایک دوست تھانیدار کہا کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا تبادلہ ،اور جہاں تبادلہ ہوگا وہاں بھی تھانیدار ہی جا کر لگنا ہے،کونسی جھاڑو لگانی ہے۔ایک اور پولیس والے دوست خود ہی کہا کرتے ہیں یار سمجھ نہیں آتی ہم لوگوں سے پیسے کس بات کے لیتے ہیں پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اگر عوم کو چھترکا ڈر نہ ہو تو ہمیں پیسے کون دے گا،ایک اورصاحب رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اینٹی کرپشن اورمیڈیاوالوں نے مل کر پکڑا وہ کچھ عرصہ جیل بھی گئے اور اب پھر افسری کر رہے ہیں۔پھر میں سوچتا ہو ں کہ ان سب کا قصو وار کون ہے ذمہ دار کون ہے تو اندر سے آواز آتی ہے ہم خود۔کیونکہ جنہوں نے قانوں بنانے ہیں اور ان پر عمل کروانا ہے ان میں سے اکثریت توخود چور ہے،اور ان کو اسمبلیوں میں ہم لوگ ہی ووٹ دیکر بھیجتے ہیں،ہمارے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے۔لیکن جو لوگ ان کو ووٹ نہیں دیتے ان کا کیا قصور وہ بیچارے بھی اسی سسٹم کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،اور صرف پولیس کا ہی نہیں تمام سرکاری محکموں کے اخلاق کا اللہ ہی حافظ ہے،لکھنے والے لکھ لکھ کر تھک گئے الیکٹرانک میڈیا والے دکھا دکھا کر تھک گئے لیکن نہ فرق پڑا ہے نہ پڑے گا،لیکن یہ محکمہ چونکہ اختیارات کے حوالے سے سب سے اہم ہے اس لیئے اس کی اخلاقی تربیت کا خصوصی انتظام کیا جائے اور ان کی چوبیس گھنٹے والی ڈیوٹی کا قانون تبدیل کیا جائے،شفٹ سسٹم قائم کیا جائے فرنٹ ڈیسک کی طرح باقی کمروں اور حوالات میں بھی اے سی لگائیں جایءں۔ اور باقی نسلوں کا پتہ ذات سے نہیں اخلاق و کردار سے چلتا ہے،دو جہانوں کے سردار حضرت محمد ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھاکہ تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے،بطور مسلمان ہم قیامت کے دن اسی آقا ﷺ کی شفاعت کے امیدوار ہیں،پولیس والے بھی ان کے امتی ہیں،اس لیئے امید کی جاسکتی ہے۔باقی اس دنیا میں سب ایک جیسے نہیں ہوتے ،

اپنا تبصرہ بھیجیں