رانامحمد بوٹا سنیارا تیسرا رخ ٹینکر

دل چاہتا تھاکہ میں بھی خوشی سے دھمالیں ڈالتا،گھی کے چراغ جلاتاشکر تقسیم کرتا لیکن بد قسمتی کہ کچھ نہیں کر سکتا کیوں کہ ۔۔۔۔میں زندہ ہوں۔۔۔۔ کیوں کہ میں ٹینکر سے بہنے والے پٹرول میں جل کر نہیں مرا،کتنے خوش قسمت تھے وہ لوگ یقین مانیں رشک آ رہا ہے ان کی قسمت پر،یہاں زندہ لوگوں کو روٹی نہیں ملتی اور وہ مر کے اپنے گھر والوں کو بیس بیس لاکھ دے گئے اور جس گھر کے تین مرے ان کو ساٹھ لاکھ ،اوپر سے ایک ایک سرکاری نوکری بھی ملے گی اور وقت کے بادشاہ وہ بھی ایک نہیں دودو بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی ان کی فاتحہ کے لیئے آئے جنت کی ٹکٹ تو پکی،اور زخمیوں کو دس دس لاکھ ،اور ایک زخمی ایسا کہ اس کا نوے فیصد جسم جل چکا ،اسنے کہا کہ میری تو زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہی یہ تھی کہ بڑے بادشاہ سلامت کا دیدار ہوجائے اور وہ پوری ہو گئی ،بہت سے دیوانے ایسے ہیں جن کی آخری یا سب سے بڑی خواہش یہی ہے اگر انہیں پتہ چل گیا تو ڈر ہے کہ وہ کہیں خود ہی ٹینکر الٹا کر خود کو نہ جلا دیں،حادثے کے شکار لوگوں کے لیئے بادشاہ سلامت لندن کی ٹھنڈ چھوڑ کر آئے اپنے نواسے سلامت کی گریجویشن کی تقریب چھوڑ کر آئے۔شائد زندگی میں مرنے والے اپنے گھر والوں کو اتنی خوشیاں نہ دے سکتے،یہاں تو ایم اے کرکے چپراسی کی نوکری بھی نہیں ملتی وہ بھی سرکاری،اور ایک دن تو دنیا سے جانا ہی ہے لیکن کس کے جانے پر بادشاہ سلامت تعزیت کے لیئے آتے ہیں ۔اور اکٹھے بیس لاکھ ۔۔۔ہائے ۔۔۔ غریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے،اب ان کے کتنے ہی مسائل حل ہو جائیں گے۔انکی بچیوں کے رشتے اچھی جگہ ہو جائیں گے،کچا گھر پکا ہو جائے گا ،اور وہ زندگی جو موت سے بھی بدتر گزررہی تھی شائد کچھ اچھی ہو جائے،اور اب مرنے والوں کی فاتحہ اور ختم وغیرہ کی رسومات بھی قرضہ لیئے بغیر اچھے طریقے سے ادا ہو جائیں گی،مرنا تو اک دن ویسے بھی تھا ہیپا ٹائٹس سے شوگر سے یا کسی اور مرض سے اور پھر سرکاری ہسپتالوں میں دوا کہاں ملتی ہے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرنے سے ایسا مرنا بہتر ہے،اوراب مرنے والوں کے بچے بھی سکول میں داخل ہو جائیں گے۔زندگی میں شائد وہ کچھ نہ کر پاتے جو انہوں نے مر کر کردیا ،لیکن میں اداس ہوں کہ میں وہاں کیوں نہیں تھا ،کاش میں بھی وہاں ہوتا اور جل کر مر جاتامیرا نام بھی شہیدوں میں آ جاتا ،میرا قرضہ اتر جاتا میرے بچوں کا اپنا گھر بن جاتا میرا بیٹا فخر سے لوگوں کو بتایا کرتا کہ جب ابو مرے تھے تو بادشاہ وقت اپنے بھائی کے ساتھ میری جھونپڑی پر آئے تھے اور یہ گھر انہی کے پیسوں سے خریدا تھااوریہ تعلیم بھی اسی پیسے سے حاصل کی تھی،وہ بادشاہ وقت کی نسلوں کے لیئے دعا کرتا،بادشاہ سلامت آپ کے نواسے سلامت رہیں آپ کی نسلیں سلامت رہیں ۔۔۔۔۔اور کچھ نہیں بادشاہ سلامت صرف ایک اپیل ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے امداد کی رقم بڑھا دیں،میں زندہ ہوں اور زندگی سے روز نئی جنگ لڑتا ہوں روزانہ ایک دن گھٹ جاتا ہے اور میں اپنوں کے لیئے کو ئی خوشی نہیں خرید پاتا کاش میں بھی ٹینکر کے حادثے میں جل مرتا اپنوں کے لیئے کچھ خوشیاں تو چھوڑ جاتا،۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں