ابن آدم سعی لاحاصل دیر آیا درست آیا

عزت شہرت اور نام خدا کی طرف سے عطا کردہ تحفہ ہوتا ہے وہ شخص عقل مند اور بہترین صفات کا مالک گردانا جاتا ہے جو اللہ کی جانب سے ملنے والے انعامات کی قدر کرے اور اس دی گئی عزت،نام اور توقیر کو سنبھال کر رکھے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی آرمی چیف کو وہ عزت،مقام اور شہرت نہیں ملی جس کے حقدار سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنے لوگوں نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہ ہونے پر خود کشیاں کیں ان کے لیے استقبالی بینرز آویزاں کیے ان کو حکومت کرنے کی ترغیبات دی گئیں مگر انہوں نے ہر چیز سے صرف نظر کرتے ہوئے پاک فوج کو بطور ایک ادارہ بلند ترین مقام پر پہنچا یا جس جگہ آج پاک فوج کھڑی ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی پاک فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے اور اس نے ہر موقع پر اس کا اظہار بھی کیا اور ثابت بھی کیا جنرل راحیل شریف نے اپنے دور ملازمت میں آپریشن ضرب عضب جیسا باکمال منصوبہ دہشت گردوں کے خلاف شروع کیا اور اس کی بدولت کافی حد تک دہشت گردی پر قابوپانے میں مدد ملی ہے جنرل راحیل شریف جانتے تھے کہ دہشت گردی کا مرکز کہاں ہے کون اس کی سرپرستی کررہا ہے اس کے ابوجود بھی جب ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو سعودی عرب میں نام نہاد 39اسلامی ممالک کی فوج کا سربراہ بنا دیا گیا بھاری تنخواہ اور دیگر مراعات دے کر گویا جنرل راحیل شریف کو پابند کر دیا گیا پاکستان سے عزت و احترام حاصل کرنیو الے جنرل راحیل شریف کو بتا یا گیا تھا یہ اتحاد دہشت گردوں کے خلاف ہے داعش کے خلاف ہے القاعدہ کو اس اتحاد کے ذریعے ختم کرنا ہے مگر حالیہ امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران جنرل راحیل شریف کو احساس ہوا کہ معاملا وہ نہیں جو ان کو بتا یا گیا تھا امریکی صدر کی سعودیہ آمد پر ان کو سیکیورٹی پلان کے لیے سعودی وزارت داخلہ میں بلایا گیا یہ بھی ان کے جھٹکے کا سبب تھا 39ممالک کی فوجوں کا سربراہ اور ایک عام سا وزارت داخلہ کا افسر ان کو بلا رہا ہے جیسے وہ ان کا ماتحت ہے بادل نخواستہ وہاں جا کر مزید خفت اور شرمساری کا سامنا کرنا پڑا ان سے کہا گیا امریکی صدر کی آمد کے حوالے سے سیکیورٹی پلان بنائیں جس پر ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا وہ سیکیورٹی انچارج نہیں ہیں مگر پھر بھی ان کو پلان بنانے کا ’’حکم‘‘دیا گیا بھاگ دوڑ کر کے انہوں نے پلان ترتیب دیا مگر اس کو سی آئی اے کی ٹیم نے یکسر بغیر دیکھے مسترد کردیا کہ سیکیورٹی پلان ہمارا اپنا ہوگا اور اس پورے دورہ کے دوران جنرل راحیل شریف کا کردار ایک معمولی سیکیورٹی آفیسر کا سا رہا ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے عام پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے جس قدر جنرل راحیل شریف کو عزت و احترام پاکستان میں د یا گیا تین سالہ مدت ملازمت میں انہوں نے بڑے دبنگ انداز میں امریکہ کا دورہ بھی کیا تب امریکہ کچھ نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ وہ حاضر سروس چیف تھے مگر امریکیوں کے بارے میں یہ بات حتمی ہے کہ یہ لوگ کینہ پرور اور دل میں بات رکھ کر انتقام لینے سے بعض نہیں آتے جنرل راحیل شریف کو 39ممالک کی افواج کا سربراہ بنانا پھر امریکی صدر کی آمد کے موقع پر ان کی تذلیل کرنا یہ سب باتیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ امریکہ نے بدلہ تو لیا ہے جیسے بھی سہی ،اخباری و میڈیا اطلاعات کے مطابق جنرل راحیل شریف نے خود کو بے بس محسوس کرتے ہوئے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا ہے کیا اس قدر آسان ہوگا ؟یہ اہم سوال ہے جو اکثر لوگوں کے ذہن میں کلبلارہا ہے جنرل راحیل شریف فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ان کا تعلق شہیدوں اور نشان حیدر حاصل کرنیو الوں کے خاندان سے ہے جھکنا انہوں نے نہیں سیکھا اب بھی اگر وہ اس نام نہاد فوج کی سربراہی چھوڑ کر پاکستان واپس آجائیں تو یقیناپاکستان کی محب وطن عوام ان کو دوبارہ وہی عزت،تکریم اور محبت دے گی دیر آیا درست آیا کے مترادف ابھی کچھ نہیں بگڑا ان وک واپس پاکستان آجا نا چا ہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں