نوک قلم سید مخدوم زیدی تفتیش

2009کی بات ہے چنیوٹ کو ضلع بنے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا ڈی پی او چنیوٹ کے طور پر پہلے بہادر آفیسر شہید فیاض سنبل کی تعیناتی ہوئی بے سرو سامانی کے عالم میں اس مرد درویش نے وقت گزارا انتہائی ملنسار اور محبت کرنے والے انسان تھے خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے گرمیوں کے دن تھے میں اپنے بچپن کے ایک دوست ماسٹر محمد رفیع شاہد پی ٹی آئی ٹیچر گورنمنٹ ہائر اسکینڈری سکول بھوآنہ کے ساتھ دریا کے اس پار ایک دوست کی والدہ کی فاتحہ خوانی کے لیے گئے ہوئے تھے تب یہ دوست محمد لالی بریج پل نہیں بنا تھا کشتیوں کے ذریعے دریا پار کرنا پڑتا تھا رات ہم وہاں گزار کر جب اگلی صبح واپس بھوآنہ کی جانب آرہے تھے تو راستے میں ہی تھے کہ تھانہ بھوآنہ میں اس وقت کے ایس ایچ او مرحوم چوہدری عبدالرزاق کے دست راست سجاد نول کا فون آیا ’’زیدی صاحب کتھے او؟‘‘میں نے کہا کہ میں دریا کے پار گیا ہوا تھا ابھی دریا پار کیا بھوآنہ کی جانب راستے میں ہیں خیریت تو ہے جواب میں سجاد نول نے جو کچھ بتا یا وہ میرے حیرت سے زیادہ شاکنگ تھا خیر میں اور ماسٹر محمد رفیع دونوں سیدھے تھانے پہنچے تو دیکھا کہ تھانے کی چھوٹی چھوٹی دیواروں کے ارد گرد لوگوں کی بڑی تعداد کھڑی تھی جب ہم مرحوم چوہدری عبدالرزاق کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ چار پانچ افراد گراسی پلاٹ پر برہنہ حالت میں ٹانگیں لمبی کیے بیٹھے تھے جن پر تازہ تازہ چھترول ہوئی تھی میں نے یہ منظر دیکھا تو ایس ایچ او سے ازراہِ ہمدردی کہا کہ چوہدری صاحب آپ نے یہ اچھا کام نہیں کیا اس طرح لوگوں کو سب کے سامنے چھترول کرنا اچھی بات نہیں کسی بھی شخص کے پاس موبائل ہوگا تو کوئی بھی ویڈیو بنا کر اس کو چینلز پر چلا دے گا مگر اس وقت چوہدری رزاق مرحوم کو حالات کی نزاکت کا احساس نہ ہوا مگر شام سات بجے مجھے اس وقت کے ڈی ایس پی چوہدری اکرم کا فون آیا ساتھ ہی کچھ دیر بعد ڈی پی او شہید فیاض سنبل نے فون کیا مجھے تھانے بلایا میں جب وہاں پہنچا تو مجھے پتا چلا کہ مختلف چینلز پر چھترول دکھائی جارہی تھی ڈی پی او نے چھترول کیس میں ملوث ایس ایچ او،چار تین مالزمین کو نہ صرف معطل کردیا بلکہ ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کروادیا ساتھ ڈی ایس پی کو معطل کردیا گیا یہ باتیں مجھے اس لیے یاد آرہی ہیں آج کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں وزیرا عظم کے صاحبزادے کو دکھایا گیا جو جے آئی ٹی کے سامنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں ساتھ ان کے ایک چھوٹی سی ٹیبل موجود ہے جس پر کاغذاور قلم موجود ہے کمرے کا ٹمپریچر بھی مناسب ہے حسین نواز شریف کے چہرے پر کوئی تکلیف کا تاثر بھی نہیں ہے مگر اس تصویر کو لے کر مختلف جانب سے اس پر وہ اودھم مچایا جا رہا ہے کہ اللہ کی پناہ ،وزیرا علیٰ پنجاب نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’معصوم بچے حسین نواز کو ایسے بٹھایا گیا ہے جیسے وہ کو ئی پاکستان کا خزانہ کھا گیا ہو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جارہا ‘‘حکومتی ٹیم کے لوگ بھی اس معاملے میں اپنا پورا زور لگا رہے ہیں کہ یہ تصویر باہر کیسے نکلی ایک بات کی سمجھ نہیں آتی حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے جس کرو فر کے ساتھ پیش ہوتے ہیں وزیرا عظم کے پروٹوکول کا سارا عملہ ان کے ساتھ ہوتا ہے حنیف عباسی سے دانیال عزیز تک سب ان کی چاکری میں ہر حد عبور کرجاتے ہیں کیا پاکستان کی عوام کو نہیں پتا کہ حسین نواز کے ساتھ اندر تفتیش ہورہی ہے؟یہ لوگ تو اس شخص کے ممنون ہوتے جس نے یہ تصویر وائرل کی حالاں کہ سو فیصد یہ حکومت کا کارنامہ ہے حسین نواز کی تصویر سامنے آئی تو ان کے خوشامدی چاہنے والوں نے شکر ادا کیا ورنہ وہ تو سمجھ رہے تھے کہ شائد حسین نواز کے ساتھ اندر چھترول ہوتی ہے شکر کریں حسین نواز کی عزت بچ گئی اس تصویر کے باہر آنے سے ،جہاں تک تصویر باہر آنے کی بات ہے تو جوڈیشل اکیڈمی کا کنٹرول کس جج کے پاس ہے؟سی سی ٹی وی کیمراز تک سک جج کی رسائی ہے؟کیا ان کا مں صب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ عدالتی ذمہ داریاں چھوڑ کر جائیں اور سی سی ٹی وی کیمراز سے حسین نواز کی تصویر نکالیں اور سوشل میڈیا پر وائرل کردیں اس سے ججز کو کیا فائدہ ؟یا پھر جے آئی ٹی اراکین کو کیا فائدہ اس سے ؟مسلم لیگ ن کے جانباز شکر کریں اور سجدہ شکر ادا کریں میاں شہباز شریف جن کو حسین نواز معصوم اور بچہ نظر آتا ہے پاکستان کی پولیس ملزم سے کیسے تفتیش کرتی ہے اس کا علم میاں صاحبان کو لازمی ہے کیوں کہ تیس سال میں انہوں نے جو ملازم پولیس میں بھرتی کروائے آج وہ مانیہوئے تفتیشی بن چکے ہیں اگر حسین نواز کو ایک گھنٹہ کے لیے پنجاب پولیس کے کسی ایک اے ایس آئی کے حوالے کردیا جاتا معصوم بچہ اپنے تمام گناہ تسلیم کرچکا ہوتا بلکہ وہ گناہ بھی تسلیم کرلیتا جواس نے ابھی کیے ہی نہیں تھے پاکستان میں یہ کہاں رواج ہے کہ ملزم کو وی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ لایا جائے اور اس کو کاغذ قلم ساتھ رکھنے اور آرام دہ کرسی ٹھنڈا کمرا دیا جائے پھر اس سے توقع رکھی جائے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کر لے گا ،مجھے 1999یاد آرہا ہے جب میاں نواز شریف کو اڈیالہ اور پھر اٹک جیل میں رکھا گیا تو میاں صاحب کی روزانہ باں باں ہوتی تھی کبھی مچھروں کا روان تو کبھی تفتیشی افسر کی جانب سے تشدد کرنے کی باتیں ہاں اس وقت کی تفتیش کو کسی حد تک کہا جا سکتا تھا کہ وہ تفتیش تھی حسین نواز توٹھنڈی گاڑی سے اترتے ہوئے فضاء میں دو انگلیوں کا نشان بنا کر یہ ثابت کرنا اپنا حق سمجھتے تھے کہ ہم نے لوٹا ہے پاکستان کا پیسہ کر لو جو کرنا ہے کرپشن کر کے جب آپ وکٹری کا نشان بنا کر گاڑی سے اتریں اور بیٹھیں وزیرا عظم کا پروٹوکول آپ کو ملے تو کیسے تفتیش کر سکتا ہے ایک گریڈ انیس یا بیس کا افسر کیا پوچھے گا؟میں نے تفتیش اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوئی ہے مختلف ادوار میں پولیس افسران سے اچھے تعلقات رہے ان کو تفتیش کرتے دیکھتا تھا کہ کیسے وہ عادی مجرمان کو سرسوں کے تیل میں بھیگے تین سے پانچ فٹ لمبے ’’لتر‘‘سے اقرار جرم کرواتے تھے وہاں کھڑے ہو کر اس انسانیت سوز منظر کو دکھنا مشکل ہوتا تھا تفتیش کا عمل اگر پوچھنا ہے تو ان غریب لوگوں سے پوچھو جو پولیس کے ہتھے چڑھتے ہیں اور کئی کئی ماہ تک اپنی ٹانگوں پر چلنے کے قابل نہیں رہتے حسین نواز آپ کے ساتھ تفتیش ہوئی کہاں ؟لطف آتا آپ کو لمیاں پایا ہوتا جے آئی ٹی کا ایک رکن عامر اس کے ہاتھ میں پانچ فٹ لمبا لتر ہوتا آپ کی تشریف پر لگتا تو آپ کو یاد آجاتا کہ لندن میں خریدے گئے فلیٹس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا تھا مگر بات پھر وہی کہ یہ سب کچھ عام آدمی کے لیے ہے اور حسین نواز صاحب بدقسمتی سے آپ عام آدمی نہیں ہیں آپ کے والد گرامی نے پیسہ ملک سے باہر بھیجا آپ نے فلیٹس خریدے آپ سے کون پوچھے گا ہاں کل ایک شخص مجھے ملا جس نے کسی کے20 ہزار روپے دینے تھے لینے والا تگڑا تھا اس نے پولیس میں درخواست دی بندے کو پکڑوایا پیسے بھی مل گئے مخالفت کا مزہ بھی اس کو سکھا دیا میاں شہباز شریف کو نظر آنے والا یہ معصوم اور بے گناہ بچہ اللہ سب کو ایسا کماؤ پوت معصوم بچہ دے جو کم از کم اپنے ماں باپ کا سہارا تو بن سکے یہاں ایسے بچے لاکھوں کروڑوں میں ہوں گے جو صبح روزگار کے لیے نکلتے ہیں شام کو چند سو روپے لے کر گھر لوٹتے ہیں اس لیے کہ وہ وزیرا عظم کے بیٹے نہیں ہوتے وہ کسی کے حسین نواز شریف نہیں ہوتے وہ بس گامے،نورے،کاکے ،سلیمے ہوتے ہیں ان کو غلام محمد نہیں کہا جا سکتا وہ نور محمد بھی نہیں کہلا سکتا اور سلیم کہنلانے کا حق بھی وہ کھو چکا ہوتا ہے کیوں کہ وہ نواز شریف وزیرا عظم پاکستان کا بیٹا نہیں ہوتا اتنی ؤرام دہ زندگی پر سکون آرام دہ ٹھنڈے کمرے میں ابا جی کے ملازم پوچھ گچھ کرنے والے ہیں تفتیش ہورہی ہے اور اگر واقعی تفتیش ہوتی تو باہر آکر انگلیوں سے وکٹری کے نشانات نہ بناتے جے آئی ٹی میں مسلسل پیشیوں نے دراصل شریف خاندان کو شرمساری میں مبتلا کر دیا ہے کہاں وہ دن کہ ججز ان کے گھر آکر سلامی دیتے اور کیس کے فیصلے بارے حکم نامہ وصول کرتے جوڈیشل کمیشنز کی رپورٹس ان کی مرضی سے بنتیں اگر کبھی جسٹس نجفی بننے کی کو شش کرتا تو اس کو سبق سکھا دیا جاتا وہ رپورٹ کبھی منظر عام پر ہی نہ آتی مگر یہاں خلاف توقع کچھ نیا ہوا ایسا نیا جس کی امید شاہی خاندان کو نہیں تھی منی ٹریل پیش کرتے کرتے خود منی ٹریل ہو گئے گو کہ جے آئی ٹی میں پیشی کو خدام خاص کورس کی شکل میں میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے تئیں حسین نوا ز شریف کو داد دے رہے ہوتے ہیں کہ لندن سے آکر پیش تو ہوئے دوسری جانب جے آئی ٹی کے خلاف سازشیں کرکے فیصلے پر اثر انداز ہونے کی بھونڈی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے تا کہ فیصلہ خلاف نہ آسکے مگر یہ1997نہیں بلکہ2017ہے تفتیش کیا ہوتی ہے تھانے میں رہ کے دیکھ!

اپنا تبصرہ بھیجیں