نوک قلم سید مخدوم زیدی حسین نواز شریف حاضر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کیس پر بنائی گئی جے آئی ٹی توقعات کے برعکس تیز رفتاری سے نہ صرف کام جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ پانامہ کیس کے اہم ملزم وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز شریف کو دو مرتبہ تحقیقات کے لیے بلا چکی ہے کالم کی اشاعت تک مزید اس کیس میں پیش رفت ہو چکی ہوگی دوسری پیشی کے موقع پر جس کرو فر کے ساتھ شہنشائے معظم کے فرزند کی سواری پہنچی جو پروٹوکول سرکاری سطح پر ان کو دیا گیا یہ سب دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دل میں پانامہ پانامہ کھیلنے کا شوق بڑھ رہا ہے قوم کے ٹیکسوں کی کمائی پر پلنے والے وزراء سخت گرمی میں بھی اپنے شہنشاہ کے ولی عہد کی سپورٹ کرنے کے لیے سارا دن دھوپ میں فقیروں کی طرح سایہ تلاش کرتے ہوئے دیکھے گئے وفاقی وزیر طارق فضل،دانیال عزیز،طلال چوہدری ،مریم اورنگ زیب سمیت دیگر وزراء ایم این ایز وہاں موجود رہ کر میڈیا پر آگے نظر آنے کے لیے پاپر بیلتے رہے حسین نواز شریف نے جے آئی ٹی کے دو ارکان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ میں ان کے خلاف درخواست دائر کی جس کو تین رکنی بینچ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیا وزیرا عظم اپنی مرضی کی جے آئی ٹی بنا کر اس سے فیصلہ کروانا چا ہتے ہیں؟یہی جے آئی ٹی کام کرے گی اور حسین نواز شریف سمیت جس کو بھی یہ کمیٹی طلب کرے گی وہ حاضری کو یقینی بنائے گا سپریم کورٹ سے پسپائی کے بعد حسب توقع مسلم لیگی توپوں کا رخ جے آئی ٹی اراکین کی جانب ہو گیا میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے لائن میں کھڑے تین (دانیال عزیز ،طارق فضل،طلال چوہدری،آصف کرمانی )باری باری میڈیا سے بات کرتے رہے مگر ان کی باتوں میں ربط کم اور چیخ و پکار زیادہ تھی سپریم کورٹ میں جب یہ کیس چل رہا تھا تب بھی دانیال عزیز،طلال چوہدری سمیت خواجہ سعد رفیق معزز ججز کے خلاف تابڑ توڑ حملے کرتے تھے ایک بار تو معزز جسٹس صاحب کو کہنا بھی پڑا کہ کچھ لوگ سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر عدلیہ پر کیچڑ اچھا ل رہے ہیں جب سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا گیا تو یہی لوگ بغیر فیصلہ سمجھے سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر وکٹری کا نشان بناتے رہے اور دھواں دھار پریس کانفرنس بھی کر دی شام وک جب فیصلے کا مکمل متن پڑھا تو عقل ٹھکانے آئی پتا چلا کہ دو ججز نے نااہل جب کہ تین ججز نے مزید انکوائری کا حکم دیا لیکن چوں کہ وکٹری کا نشان بنایا جا چکا تھا عزت بھی بچا نی ضروری تھی یہی ٹولہ ایک بار پھر میدان میں آیا دوکانوں سے مٹھائی ختم ہوگئی مبارک بادوں کا سلسلہ ایسا چلا خود میاں نواز شریف بھی پریشان ہو گئے کہ یہ کیسی مبارک باد ہے ؟دو جج نااہل کرنے کی سفارش کررہے ہیں باقی تین جج کہتے ہیں کہ ابھی مزید پوچھا جائے مگر وزراء اور خوشامدیوں نے میاں نواز شریف کو اپنے حصار میں لے کر سمجھا دیا کہ جناب کوئی بات نہیں ملک کی اکثر عوام ان پڑھ اور فہم و فراست سے کوسوں دور ہے آپ اور آپ جیسے دیگر سیاست دانوں کی وجہ سے اس لیے کسی کو اصل بات کا علم ہی نہیں ہے ڈھول تاشے بجائے گئے جشن منائے گئے مگر ابھی فلم باقی تھی سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا خوشامدی پھر تولیہ لے کر آگے بڑھے میاں نواز شریف کے کانوں میں پھونکا کہ جناب جے آئی ٹی کیا پہلی بار بن رہی ہے؟لاہور ماڈل ٹاؤن میں جے آئی ٹی نے کیا کرلیا؟لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مگر مشیروں نے یہاں بھی وزیرا عظم کو دھوکہ دیا جب سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ پانچ مختلف ادارے اپنے اپنے قابل اور ایماندار لوگوں کی فہرست عدالت میں پیش کریں یہاں بھی تولیہ بردار خوش ہوئے کہ اب تو بات اپنے ہی ہاتھ میں آئی سمجھو مگر بازی پھر الٹ گئی عدالت نے اپنی مرضی کے لوگوں کو جے آئی ٹی میں شامل کیا لوگوں کے اذہان میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ جے آئی ٹیز کا ماضی میں حال دیکھ کر یہاں بھی یہی حال ہوگا بہت سے کالم نگاروں نے اس پر طبع آزمائی کی ا ور لکھا کہ کون سی جے آئی ٹی ہے جو وزیرا عظم یا اس کے خاندان کو طلب کرے گی جتنے منہ اتنی باتیں ،لیکن جے آئی ٹی نے ملکی تاریخ کو یکسر تبدیل کردیا جب وزیراع ظم کے صاحبزادے کو نہ صرف سمن بھیج کر طلب کیا بلکہ دو بار بلا کر ان سے سوالات کیے اور جاتے وقت ان کے ہاتھ میں سوال نامہ تھما تے ہوئے اس کا جواب لانے کا کہا ،جے آئی ٹی میں ایک پیش رفت اور بھی ہوئی جب نیشنل بنک کے صدر جن کو بطور رشوت یہ عہدہ دیا گیا جن کا نام حدیبیہ پیپرز ملز میں آیا جہاں اسحاق ڈار نے اپنے بیان حلفی میں منی لانڈرنگ کا اقرار کیا اس کی بنیاد پر سعید احمد کابیان بھی ریکارڈ کیا گیا حکمران جماعت کی طرح اس کے لے پالک نیشنل بنک کے صدر سعید احمد بھی جے آئی ٹی کے بار باربلانے پر بھی پیش نہ ہوئے تو سپریم کورٹ کو آڈرز جاری کرنے پڑے اگر سعید احمد پیش نہیں ہوتے تو ان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے جس کے بعد وہ جے آئی ٹی میں پیش ہو گئے ان سے بھی سوالات کیے گئے ۔حسین نواز شریف حاضر ہوں ۔۔۔۔یہ تصور اور یہ آواز کسی بھی پاکستانی کے ذہن میں کبھی نہیں تھی کون تصور کر سکتا تھا کہ حکمران جماعت کے کسی فرد کو ایسی جے آئی ٹی اس طرح بھی طلب کرسکتی ہے کہ سامنے پڑی ایک کرسی پر بٹھا کر ان سے سوالات کیے جائیں جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے لیے گو کہ حسین نواز شریف پورے لشکر کے ساتھ بھر پور سیکیورٹی جیمرز والی گاڑی خوشامدوں کی فوج ظفر موج کے ساتھ وہاں پہنچے مگر پھر بھی یہاں عمران خان کو اتنا کریڈٹ تو دینا چا ہیے اس نے وہ کام کردیا جو اس سے پہلے کوئی نہ کرسکا شریف بردارن کے بارے میں ہمیشہ یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ یہ وکیل نہیں کرتے بلکہ براہ راست جج کر لیتے ہیں اس کبھی کسی عدالت میں ان کے خلاف فیصلہ نہیں آیا اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا یہی ہوتا آیا ہے لیکن پانامہ کیس نے نواز شریف فیملی کی بچی کھچی عزت کو تار تار کرتے ہوئے عوام کے سامنے بالکل ننگا کردیا جے آئی ٹی سے کسی بڑے بریک تھرو کی امیدنہیں کی جاسکتی مگر کچھ دیر کے لیے تھرلنگ،سسپنس اور لوگوں کے چہروں پر خوشی ضرور دیکھی جا سکتی ہے ایک مجرم کی طرح بدحواسی کی تصویر بنے وزیرا عظم کے صاحبزادے جب جے آئی ٹی کے سامنے پہلی بار پیش ہوئے تو شائد ان کے ذہن میں بھی یہ نہیں ہوگا منہ میں سونے کا چمچ لے کر ساتھ سیکڑوں ’’چمچے‘‘رکھنے والے شہنشائے عمظم کے قابل سپوت کو یہ خیال کب آسکتا ہے کہ کسی دن ان کو اپنے ہی باپ کے ماتحت ملازمین کے سامنے ایک مجرم کی طرح پیش ہونا پڑئے گا ان کے خلاف بھی سمن جاری ہوں گے ایسا ہوا بالکل ہوا انجام سے بے پرواہ عوام کے لیے وہ لمحہ یقیناًسکون کا تھا جب تخت لاہور کا شہزادہ بوکھلاہٹ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا دانیال عزیز جیسے مشیروں کی سکھائی ہوئی باتوں پر عمل کرکے گہری کھائی میں منہ کے بل گرتے جارہے ہیں جے آئی ٹی کا طویل ترین اجلاس جس میں سعید احمد سے تین گھنٹے اور حسین نواز سے چھ گھنٹے تک مسلسل تفتیش ہوتی رہی بتا یا جائے فلیٹ خریدنے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟قطری خط سمیت دیگر آٹھ سوال پوچھے گئے چھ گھنٹے تک پیشی بھگتنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے حسین نواز کا چہرہ صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ ڈیپریشن کا شکار ہیں دوران تفتیش خبر باہر نکلی کہ ان کی شوگر کم ہو گئی ہے جس پر ایمبولینس منگوائی گئی مگر شائد اس کی ضرورت پیش نہیں آئی صاحبزادے کی طبیعت ویسے ہی سنبھل گئی پاکستان تاریخ کے اہم موڑ سے گزر رہا ہے یہ تصور کبھی کیا ہی نہیں جاسکتا تھا کہ وزیرا عظم نواز شریف کے بیٹے کو گریڈ انیس یا بیس کے افسران کے سامنے پیش ہونا پڑے نتائج سے قطع نظر ’’حسین نواز شریف حاضر ہوں ۔۔۔جیسا جملہ سن کر لوگ عمران خان کو بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں پیپلز پارٹی کی سیاست کو بیک فٹ پر دھکیلنے اور خود کو حقیقی اپوزیشن لیڈر ثابت کرنیمیں کا میاب ہو چکے ہیں کل تک سپریم کورٹ میں کیس لے جانے اور سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھا دونوں پارٹیاں عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف تھیں اور مل جل کر اس طوفان کا مقابلہ کر نے کے لیے نورا کشتی کا مظاہرہ کرتی رہیں زرداری نے بہت کوشش کی لوگوں کی توجہ نواز شریف اور پانامہ سے ہٹانے کی مگر اس بار تقدیر گھیر گھار کر نواز شریف کو عدالت میں لے آئی ہے اب تو پیپلز پارٹی بھی مخالفت کے باوجود پانامہ کو ہی ایشو بنا کر نواز شریف پر تنقید کرتی ہے فلم تو ابھی باقی ہے اندر سے پیپلز پارٹی بھی نہیں چاہتی کہ مسلم لیگ ن مارچ تک حکومت کرے سینیٹ کے انتخابات میں اکثریت کے خواب سب دیکھ رہے ہیں اب دیکھتے ہیں ہوتا کیا ہے کون کیا چال چلتا ہے ؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں