نوک قلم سید مخدوم زیدی مجھے ہے حکم اذاں ۔۔لاالہ اللہ

ارشاد خدا وندی ہے جس نے کسی ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا،دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ لینا اور اس بات پر قائم ہو جانا دولت مندوں کو اپنی دولت میں مزید اضافے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرنے کے لیے آخری حد تک چلے جانا دنیا کی بے ثباتی اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔کبھی کبھی انسان کے ساتھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں ایسا موڑ آتا ہے جہاں اس کو رشتوں ،دوستی اور تعلقات کے مقابلے میں اپنی دیانت دارانہ رپورٹنگ کو چننا پڑتا ہے گو کہ یہ مشکل ترین عمل ہے ایک معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں طاقتور کے لیے الگ قانون اور کمزور کے لیے الگ ہو صحافت کو مشکل ترین شعبہ بھی شائد اسی لیے کہا گیا ہے کہ کانٹوں کی سیج ہے اگر اس کو اس کی اصل روح کے مطابق کیا جائے میں یہاں ایک بار پھر اپنے قابل صد احترام اور بزرگ ترین صحافی حاجی شہزادہ محمد اکبر وہرہ صاحب کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے ان کا جملہ نقل کروں گا کہ ’’قلم کی حرمت ماں کی عصمت کی مانند ہوتی ہے‘‘یعنی جس نے قلم کی حرمت کو پامال کیا اس نے ماں کی حرمت کو بھی سر بازار فروخت کردیا علم اور اس کی روشنی کو پھیلانے کی جستجو کرنے والے بہت سے لوگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے والوں میں بھی اپنا شمار نہیں ہوتا کجا ہم خود کو صحافی لکھیں یا کہیں زندگی کا نصف سے زیادہ اس شعبے میں حصہ جھونک دینے کے باوجود ابھی تک قلم کو درست طریقہ سے پکڑنے علم ہی نہیں ہے شائد طفل مکتب بھی نہیں ہوں لیکن حق لکھنے کہنے اور بولنے میں کبھی جھجھک محسوس کی آئندہ ہوگی زندگی ہے کیا؟ایک مشت غبار مٹھی کھولی پھونک ماری جیسے مٹی اڑ جاتی ہے ایسے ہی یہ زندگی بھی پل بھر میں دیگر مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہوجاتی ہے حضرت علی علیہ السلام نے اسی زندگی کو تین طلاقیں دیں اور فرمایا کہ زندگی بھیڑ کی ناک سے بہتی غلاظت سے بھی بدتر ہے اگر اس کو احکام خدا وندی کے مطابق نہ گزارا جائے دعویٰ پارسائی تو نہیں ہے مگر خلق خدا کے لیے وقت کے فرعونوں سے ٹکرا جا نے کا حوصلہ انہی معصومین علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو پڑھ کے حاصل ہوا ہے کبھی ایسا نہیں کیا کہ کسی کی کرپشن یا ظلم کو بے نقاب کرنے کے لیے خبر لگائی ہو اور پھر اس کو اخبار کو بغل میں دبا کر متعلقہ شخص یا دفتر میں گیا ہوں الحمداللہ تیسرا سال اخبار کو شروع ہوئے جارہا ہے کوئی بھی سنگل شخص اٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی سرکاری افسر یا کسیکرپٹ شخص کو بلیک میل کر کے اشتہارات مانگے ہوں یا کبھی ان سے کوئی فائدہ لیا ہو اس دنیا میں جہاں برائی اور برے لوگ عروج پر ہیں وہیں اچھے اور معاشرے کو صاف کرنے کی نیت رکھنے والے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ایک جانب تو لوگ اپنی دولت میں اضافے کے لیے ہر طریقہ اختیار کررہے ہیں مجھے یاد ہے 2014میں ایک واقعہ لاوہر صدر میں ہوا تو اس کے ڈانڈے یہاں بھوآنہ تک آپہنچے کچھ لوگوں کو یقین ہوا کچھ نے اس کو میڈیا کی خبر تک محدود رکھا کاشف نامی نوجوان جو کینٹ لاہور کا رہائشی تھا اس کو ورغلا کر یا اغواء کر کے ایک کوٹھی میں لیجایا گیا جہاں پرائیویٹ کلین قائم تھا اور ڈاکٹر فواد ممتاز چدھڑ نامی شخس جو بدقسمتی سے ہمارے علاقہ کی زمیندار فیملی سے تعلق رکھتا تھا جس کوکسی بھی چیز کی کمی نہیں تھی خدا کا دیا سب کچھ تھا عزت زمین رشتے سب کچھ تو تھا پاس مگر پھر بھی دولت کی ہوس نے اس کو مجبور کیا کاشف نامی اس نوجوان کو اغواء کروانے کے بعد اس کے دونوں گردے نکالے تو نوجوان انتقال کر گیا جس کی نعش کو اپنے ملازم کے ذریعے بھوآنہ کے نواحی گاؤں مسل پور 188میں خاموشی سے دفنا دیا گیا حتیٰ کہ اس مظلوم و بے یارو مدد گار نوجوان کو جنازہ بھی نصیب نہ ہوا (قبر کشائیکے بعد لواحقین نے غسل و کفن دے کر دوبارہ لاہور میں پڑھایا )ملازم لڑکے نے نعش کو دفن تو کردیا مگر ڈاکٹر فواد چدھڑ کے حکم کے باوجود اس نوجوان اکشف کا موبائل ساتھ دفن نہ کیا جس وک بعد ازاں پولیس نے ٹریکر کی مدد سے تلاش کیا اور موضع مگینی سے اس نوجوان کو موبائل سمیت پکڑا جس نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ کس طرح ڈاکٹر فواد چدھڑ نے اس کو یہ نعش دی اور پیسے دیئے کہ اس کو لے جا کر فلاں جگہ دفنا دو اس تمہید کا مقصد ان لوگوں کو صورت حال سے آگاہ کرنا ہے جن کو گردہ اسکینڈل کے پس منظر کا پتا نہیں ہے بعدازاں اس ملزم کی نشاندہی پر قبر کشائی ہوئی کاشف کی کٹی پھٹی نعش برآمد ہوئی سج کی آنکھیں تک نکال لی گئیں تھیں پوسٹ مارٹم کے بعد مقدمہ درج ہوا ڈاکٹر فواد بیرون ملک بھاگ گیا جب کہ لاہور پولیس نے مسلسل بھوآنہ میں ڈاکٹر فواد کے بھائیوں اور دیگر کی گرفتاری کے چھاپے مارے مگر کچھ نہ ہو سکا گردہ مافیا زیادہ طاقت ور تھا بہر حال ایک دن مجھے مقتول کاشف کے کزن اعطم جو اس تمام کیس کو دیکھ رہا تھا کا فون آیا جو زار و قطار روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ زیدی صاحب یہ طاقت ور لوگ ہیں پولیس ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے ریڈ پر جانے سے پہلے ان کو مطلع کر دیتی ہے ہم خرچہ کر کر کے تنگ آچکے ہیں مگر ملزمان پکرے نہیں جاتے ہم نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں چھوڑ دیا ہے یوں یہ کیس کاشف مقتول کے ساتھ منوں مٹی کے نیچے دب گیا تب بھی بھوآنہ سے میں واحد شخص تھا جس نے اپنے ہی صحافی دوستوں کے روکنے کے باوجود مظلوم کا ساتھ نہیں چھوڑا اور مسلسل اس پر رپورٹنگ کی کالمز لکھے جن کو آج مختلف چینلز نے میرے نام کے ساتھ اپنے پروگرامز میں شامل کیا آج تین سال بعد ایک بار پھر گردہ اسکینڈل کا غلغلہ اٹھا ایک ٹی وی چینل سے خبر آئی کہ غیر قانونی طور پر گردے نکال کر غیر ملکیوں کو لگانے والے گروہ کی گرفتاری ایف آئی اے کے کرائم ونگ کے ذریعے عمل میں آئی جس میں ملوث افراد کے انم سامنے آئے تو مجھے2014یاد آگیا ڈاکٹر فواد اور ڈاکٹر التمش کو موقع سے گرفتار کیا گیا جب کہ وہ ایک خاتون کے گردے کی پیوند کاری کررہے تھے اس سے پہلے کاشف مقتول کیس میں ڈاکٹر فواد سمیت کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی ڈاکٹر فواد چوہدری کی گرفتاری اور ڈاکٹر التمش کا اعتراف جرم نہ صرف ہولناک تھا بلکہ ان کے ساتھ کچھ اور معزز لوگوں کے چہروں سے بھی پردے اٹھنے لگے ایک ہفتے کے دورا ن ایف آئی اے نے مزید تحقیقات کیں تو ’’سہولت کار‘‘کے ضمن میں اسی فیملی کے دو مزید سپوت قمر آفتاب چدھڑ اور ثاقب چدھڑ اور ایک مزید شخص کو مری سے گرفتار کیا گیا جس کو پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے خصوصی کوریج دی ثاقب چدھڑ کے بارے میں تو علاقہ بھر کے ہر بچہ کو معلوم تھا کہ موصوف گردہ فروشی کے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں مگر سیاسی خاندان کے چشم و چراغ اور علاقہ میں خدمت خلق کے لیے شہرت رکھنے والے چوہدری آفتاب احمد اور چوہدری مظہر قیوم مرحوم کے بزعم خود سیاسی وارث چوہدری قمر آفتاب چدھڑ کی خبر اہل علاقہ پر بجلی بن کے گری مگر یہ ان کے لیے نئی خبر ہوگی جاننے والوں کے لیے نہیں جب چوہدری قمر آفتاب نے بھوآنہ اور عملی سیاست کو خیر باد کہا تو زیرک اور سمجھدار لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی بندہ ناچیز کے کانوں میں تب سے ہی کچھ ایسی ویسی خبریں پڑنے لگیں تو چوہدری قمر سے غیر محسوس انداز میں علیحدگی اختیارکر لی اور اپنے ادارے سن سٹریٹ جرنل سے ان کو الگ کر دیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر2014میں مقتول کاشف کے لواحقین کو انصاف مل جاتا تو آج ہزاروں لوگ گردوں سے محروم نہ ہوتے سہولت کار کے طور پر پکڑے جانے والے ’’سالے بہنوئی‘‘کے بارے میں ایف آئی اے کے پاس بہت کچھ ہے مگر میں زیادہ پرا مید نہیں ہوں کیوں کہ جو بیانات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کروڑوں کمانے کی بات کی جارہی ہے کہ گردہ فروشوں نے کروڑوں روپے کمائے مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگوں کو گردوں سے محروم کردیا گیا ہے کتنے لوگ انجانے میں اپنے گردے سے محروم ہو کر خود کو ’’اپینڈکس ‘‘میں مبتلا سمجھتے رہے ممکن ہے اس کیس کا بھی کچھ نہ بنے مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘دیتے ہیں بازی گر دھوکہ کھلا ‘‘بظاہر معزز اور عزت دار نظر آنے والے لوگوں کے چہروں سے جب خدا نقاب اتارتا ہے تو اندر سے بھیانک چہرے نکلتے ہیں یہ دولت پیسہ گاڑیاں بنگلے سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘کسی کو موت کی وادی میں سلاتے وقت ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جانا ہم نے بھی اسی مٹی میں ہے ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘اس کاروبار میں عزت و چودھراہٹ بھی گئی‘‘دنیا کے خداؤں کی رسی کھینچنے کے لیے پاک پروردگار بھی اوپر بیٹھا ہے ظاہری نمازیں روزے اور دکھاوے کی خدمت خلق خدا سب کچھا ٹھا کر منہ پر مارے گا ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ‘‘وہی خدا ہے ۔وہی خدا ہے !! مجھے ہے حکم اذاں ۔۔لاالہ اللہ ۔اور زندگی کی آخری سانس تک !!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں